ڈیجی میپ اور ممبر اداروں کا پاکستان میں بچوں کے حقوق کی بہتری کا مطالبہ 

اسلام آباد – 20 نومبر 2023:- بچوں کا عالمی دن ہر سال 20 نومبر کو منایا جاتا ہے۔ اسی دن 1989 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بچوں کے حقوق کے کنونشن کی باقاعدہ منظوری دی۔ پاکستان دنیا کا پہلا اسلامی ملک ہے جس نے اس کنونشن کی توثیق کی۔ ڈیجی میپ یہ یقین رکھتا ہے کہ پاکستان میں بھی بچوں کو وہ تمام حقوق اسی طرح ہی میسر ہوں جن کا ذکر کنونشن آن دی رائٹس آف دی چائلڈ کے ٥٤ آرٹیکلز میں کیا گیا ہے۔

بچوں کے حقوق جو بنیادی طور پر انسانی حقوق کے زمرے میں ہی آتی ہیں جنھیں پاکستان میں شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ ساحل ‘ظالم اعداد’ کی رپورٹ کے مطابق جنوری سے جون 2023 تک بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کل 2227 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں اوسطاً 12 بچے روزانہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔ پائڈ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانچ سے سولہ سال کے درمیان 23 ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں. اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے حساب سے پاکستان کا دنیا میں دوسرا نمبر ہے۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 3.3 ملین پاکستانی بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ 20-49 سال کی تقریباً ایک چوتھائی خواتین کی شادی 15 سال کی عمر سے پہلے اور 31 فیصد کی اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں سے صرف 34 فی صد کا پیدائش کے وقت اندراج کیا جاتا ہے.

پاکستان میں بچوں کے حقوق سے متعلق اس پریشان کن صورتحال کو دیکھ کر ڈیجی میپ اور اس کے ممبر ادارے بھی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں. کابینہ ممبرز اس بات کا اعادہ کر رہے ہیں کہ ملک بھر میں ڈیجیٹل میڈیا سے وابسطہ صحافیوں کو اس حوالے سے پہلے سے بڑھ کر کردار ادا کرنا ہوگا۔ بچوں کے حقوق کی جہاں بھی خلاف ورزی ہو اسے سامنے لانے اور اس کے حل کے لئے بھی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ساتھ ساتھ بچوں اور نوجوانوں کے لیے متعلقہ مسائل پر اپنے تحفظات کا اظہار کرنے کے لیے پلیٹ فارم کا قیام بھی ناگزیر ہے۔

ڈیجی میپ کے صدر سبوخ سید نے ڈیجیٹل میڈیا کے صحافیوں پر زور دیا کہ وہ اس دن کے حوالے سے منعقد ہونے والے تعلیمی و دیگر تقریبات کی بہترین کوریج کریں جو بچوں کے حقوق اور معیاری تعلیم کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کریں۔ انہوں نے ایسی پالیسیاں اور اقدامات اٹھانے پر بھی زور دیا جو بچوں کی فلاح و بہبود کی حفاظت اور معاونت کرتے ہوں۔ بچوں کو آرٹ، موسیقی اور مختلف تخلیقی سرگرمیوں کے ذریعے اظہار خیال کرنے اور ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ انھوں نے مزید کہا کہ تمام بچوں کے پس منظر سے قطع نظر سب کے لئے یکساں مواقع اور تعلیم اور وسائل تک رسائی کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔

جنرل سیکرٹری ڈیجی میپ عدنان عامر نے کہا کہ بچوں کے حقوق کا تحفظ بنیادی طور پر حکومت اور اس کے اداروں کی ذمہ داری ہے۔ ہم اپنی رکن تنظیموں پر زور دیتے ہیں کہ وہ بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں پر روشنی ڈالیں اور متعلقہ اداروں اور حکام کو ایسی خلاف ورزیوں کے خلاف بروقت اور سخت اقدامات کرنے کے لیے جوابدہ ٹھہرائیں۔ ہم متعلقہ حکام سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان میں بچوں کے حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے سالانہ بجٹ میں خاطر خواہ رقم مختص کرے۔

عالمی یوم اطفال 2023 کا تھیم ”ہر حق – ہر بچے کے لیے” ہے۔ ڈیجی میپ کے پلیٹ فارم سے ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان میں ہمارے بچوں کی موجودہ صورتحال کو تسلی بخش بنائے بغیر ایک بہتر اور خوشحال پاکستان کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ہماری آنے والی نسلوں کو دنیا کی قیادت کرنے کے قابل بنانے کے لیے اپنے بچوں پر مناسب سرمایہ کاری ضروری ہے۔

مضافاتی علاقوں میں صحافیوں کی تربیت کے لیے کوئی اقدمات نہیں کیے جاتے

صبا چودھری،  بلاگر

 

جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بھی چھوٹے شہروں، گاؤں اور دیہاتوں میں رہنے والے صحافی خبر دینے درست یا غلط خبر کی پہچان رکھنے یا اس حوالے سے کسی بھی معلومات سے لا علم ہیں۔

اسی طرح یونیورسٹی میں طلبہ کو صرف کتابوں میں سب پڑھایا جاتا ہے لیکن عملی طور پر کوئی بھی ٹولز یا میڈیا سیفٹی کے بارے میں نہیں سکھایا جاتا ہے۔

محمد شیرازی دس سال سے صحافت سے وابستہ ہیں اور پانچ سال سے نارووال میں سنو ٹی وی کے لئے کام کر رہے ہیں۔ جہاں وہ سماجی علاقی اور ضلعی خبریں کور کرتے ہیں۔

لیکن آج تک انہوں نے ایسی کوئی بھی تربیت نہیں لی جس میں ان کو خبر دینا یا کسی ہنگامی صورتحال میں اپنے آپ کو محفوظ رکھنا سکھایا گیا ہو۔

شیرازی بتاتے ہیں کہ، “کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ کسی ادارے کی خبر دیتے وقت بہت سی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کافی پریشر بھی آتا ہے لیکن معلوم نہیں کہ اس صورت حال میں کس سے رابطہ کریں یا کیا کریں”

اسی طرح فلڈ کی کوریج کے دوران بھی کوئی ایسا حفاظتی سامان ساتھ نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی بتایا گیا کہ ہنگامی صورتحال کی دوران کیا کرنا ہے. ہمیں ایک شہر سے دوسرے شہر کتنے کلو میٹر طے کر کے اپنا کام کرنا پڑتا ہے”

اسی طرح چھوٹے شہروں میں رہنے والے مختلف چینل سے وابستہ صحافیوں کو جینڈر سینسٹو رپورٹس کو کوور کرنے کے بارے میں کبھی نہیں سکھایا گیا۔

اشتاق ربانی نارووال میں 24 نیوز سے وابستہ ہیں جہاں وہ ضلح کی خبریں کوور کرتے ہیں”۔ وہ بھی پندرہ سال سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں لیکن اتنے سالوں میں انہوں نے آج تک ایک بھی ایسی تربیت ورکشاپ نہیں لی جس میں ان کو صحافت کے بنیادی اصولوں کے بارے میں سکھایا گیا ہو۔

انہوں نے بتایا کہ چھوٹے شہروں میں صحافیوں کی تعلیم و تربیت ہونا لازمی ہے کیوں ایک خبر تو گراس روٹ پر بیٹھا صحافی ہی دیتا ہے لیکن اس کو خبر دینے یا اس کے مطلق کچھ بھی نہیں سکھایا جاتا ہے”۔”جس کی وجہ سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا اور ہم سے کافی غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں”۔

مکمل خبر پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں:

 

ڈیرہ اسماعیل خان فرسٹ ایئر کی طالبہ ثانیہ امین نے چالیس سال پرانی بس کو سجا دیا

بے رنگ چیزوں میں رنگ بھرنے کا شوق ہے،ہمیں کہا گیا ٹرک آرٹ مردوں کا کام ہے بس ہم نے اسے سجانے کی ٹھان لی، ثانیہ امین
گرلز ڈگری کالج کی ثانیہ امین اور ٹیم نے کھٹارا بس کو سجا دیا.